Saturday, June 27, 2009

Kenia News

کینیا میں ریکارڈ پناہ گزین کیمپ بن گیا،اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کینیا میں قائم کیمپ دنیا کا سب سے بڑا رفیوجی کیمپ بن چکا ہے اور صومالیہ سے روزانہ پانچ سو سے زائد بھوکے افراد اس کیمپ کا رخ کررہے ہیں۔ صومالیہ کے بارڈر کے قریب واقع کینیا کے داداب رفیوجی کیمپ میں اس وقت دو لاکھ اسی ہزار مہاجرین پناہ گزین ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ادارے نے اڑتیس ہزار مہاجرین کی مزید رجسٹریشن کی ہے اور صومالیہ میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے روزانہ ہزاروں افراد یہاں کا رخ کررہے ہیں۔ یورپی یونین کے انسانی امداد کے علاقئی افسر کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہورہے ہیں۔کینیا میں جاری نسلی فسادات اور بڑھتی ہوئی بھوک نے ہزاروں افراد کو ان کیمپوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مئی میں ہونے والی شدت پسندوں کی جھڑپوں میں دو سو پچیس سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔ جبکہ دارالحکومت موگا دیشو میں ایک لاکھ ستر ہزار سے زئد افراد بے گھری پر مجبور ہوئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان مہاجرین کے لئے کوئی دیرپا حل تلاش کررہی ہے۔

Thursday, June 25, 2009

Sania Mirza...!

’انتہائی غریب‘ ثانیہ مرزا

عمر فاروق

بی بی سی حیدرآباد، انڈیا

ثانیہ مرزا

ثانیہ مرزا انڈیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں سمجھی جاتی ہیں

اگر انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش کے حکومتی ریکارڈز کو سچ مان لیا جائے تو ٹینس کی سٹار کھلاڑی ثانیہ مرزا انتہائی غربت میں رہتی ہیں۔

حکام کے مطابق انہیں ایک تفتیش کے دوران ایک غریبوں کو دیا جانے والا ایک خصوصی شناختی کارڈ ملا ہے جس پر ثانیہ مرزا کی تصویر اور نام ہے۔

وزیاناگرام ضلع سے جاری ہونے والا یہ کارڈ بتایا ہے کہ نہ صرف ثانیہ مرزا غریب ہیں بلکہ شادی شدہ بھی ہیں۔ ان کے شوہر کی عمر بیس سال ہے۔

حقیقت میں دنیا کی ٹاپ رینکنگ کھلاڑیوں میں شامل ثانیہ مرزا غیر شادی شدہ ہیں۔

’بی پی ایل‘ (بیلو پاورٹی لائنز) یعنی ’غربت کی لکیر سے نیچے‘ کے نام سے جانے والے یہ شناختی کارڈز ان افراد کو دیے جاتے ہیں جو انتہائی غریب ہوتے ہیں۔ ان کارڈز کی وجہ سے انہیں سستے چاول (دو روپے فی کلو)، پینشن، گھر اور مفت علاج کی سہولت ملتی ہے۔

یہ جعلی کارڈ وزیاناگرام ضلع کے ایک گاؤں ویپادو کے محصولات کے محکمے کی طرف سے جاری کیا گیا تھ

Sunday, June 21, 2009

پاکستان نے ٹونٹی ٹونٹی عالمی کپ جیت لیا

محمد عامر

عامر نے پہلا اوور میڈن کروایا اور ایک وکٹ بھی حاصل کی..اتوار کو انگلینڈ میں ٹونٹی ٹونٹی عالمی کپ کے فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو آٹھ وکٹوں سے ہرا دیا۔ پاکستان نے ایک سو انتالیس رن کا مطلوبہ ہدف انیسویں اوور میں حاصل کیا۔

پاکستان کی طرف سے شاہد آفریدی نے چالیس گیندوں پر چون رن بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ ان کی شعیب ملک کے ساتھ تیسری وکٹ کے لیے چھہتر رن کی شراکت ہوئی۔ شعیب ملک چوبیس رن پر ناٹ آؤٹ رہے۔

میچ کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان یونس خان نے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ سے ریّائر ہونے کا اعلان بھی کر دیا

Wednesday, June 17, 2009

....... مالی سال 2009-10ءکےلئے صوبہ سرحد کا بجٹ پیش

مالی سال 2009-10ءکے لئے صوبہ سرحد کا دو کھرب 14 ارب 18 کروڑ روپے 11 لاکھ 22 ہزار روپےخسارے کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔حکومت کو بجٹ میں 3.1ارب روپے خسارے کا سامنا ہے ۔کل آمدن کا تخمینہ دو کھرب گیارہ ارب جبکہ اخراجات کا تخمینہ دو کھرب 14ارب دو کروڑ روپے ہے۔آئندہ مالی سال 2009-10میں اخراجات کی مد میں بجٹ کا تخمینہ 214.2 بلین روپے لگایا گیا ہے۔جس میں 80بلین روپے اخراجات جاریہ کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔ صحت اور تعلیم کے لئے6بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔پولیس کو9.7بلین روپے اور پنشن کی ادائیگی کے لئے7.2ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ضلعی حکومتوں کو تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں34.9بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ریونیو اور اسٹیٹ کو ریلیف اِقدامات کے لئے1.1بلین روپے مہیا کئے جا رہے ہیں۔گندم پر سبسڈی کے لئے2بلین روپے، قرضوں کی ادائیگی کے لئے8.1بلین روپے اور متفرق اخراجات کے لئے11بلین روپے مہیا کئے جا رہے ہیں۔اِن اخراجات کے علاوہ دیگر اخراجات میں جاریہ کیپیٹل اخراجات کے لئے3.2بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص شدہ رقم 51.2بلین روپے ہے اور خوراک کی مد میں کیپیٹل اِخراجات کے لئے79.7بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سال 2009-10 کیلئے کل اخراجات کا تخمینہ 214.2 بلین بنتا ہے۔ بدھ کے روز سرحد اسمبلی میں مالی سال 2009-10ءکابجٹ پیش کر دیا گیا ۔صوبائی وزیر خزانہ ہمایون خان کی علالت کے باعث سرحد اسمبلی سے عدم موجودگی کے نتیجے میں سینئر صوبائی وزیر رحیم داد خان نے بجٹ اسمبلی میں پیش کیا ۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے رحیم داد خان نے کہاکہ سال 2009-10کا بجٹ بناتے وقت جو مقاصد صوبائی حکومت کے مدنظر تھے۔وہ کچھ اِس طرح سے ہیںسوشل سروس سیکٹرز(Social Service Sector)میں خدمات کی فراہمی(Service Delivery)کو بہتر بنانا۔اکنامک سروس کے محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانا۔روزگار کے نئے مواقع کی فراہمی۔امن و امان کی حالت میں بہتری لانا۔چھوٹے کاروبار کو فروغ دینا اور اُس کے لئے اِقدامات اُٹھانا۔زراعت کو مزید ترقی اور بڑھوتری دینا۔صحت کی سہولتوں کی فراہمی مین مزید بہتری۔IDPsکے حوالے سے ضروری فنڈز کی فراہمی تاکہ اُن کی بحالی و آباد کاری ہنگامی بنیادوں پر کی جا سکے۔عوام کو بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی۔صحت نہایت اہم شعبہ ہے۔اِس سے معاشرے کے ہر فرد کا واسطہ پڑتا ہے۔اِس سیکٹر کے تحت امراض سے بچاﺅ اور اُن پر قابو پانے کے لئے مدافعتی پروگراموں بالخصوص صحت ِ تولیدی۔بچوں کی صحت۔غذائیت کی کمی اور بنیادی سہولیات کے ڈھانچے کو بہتر بنانا شامل ہیں۔تاکہ صحت مند معاشرے کے قیام کو ممکن بنا یا جائے۔تپ دق کا تدارک اور علاج، زچہ و بچہ کی صحت، بنیادی صحت میں بہتری، ہیپاٹائٹس، ملیریا اور ایڈز سے بچاﺅ، بچوں و ماﺅں کی شرح اموات کو کم کرنا اور مستقبل میں اِن سہولیات کا دائرہ کار تمام اضلاع تک بڑھانا صوبائی حکومت کے اولین مقاصد کا حصہ ہے۔قوموں کی بقائ، سالمیت اور ترقی کا راز اچھی تعلیم اور بہتر تربیت مین مضمر ہے۔اِس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔زراعت صوبے کی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے۔یہ خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ70فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔افزائشِ حیوانات کسان کے لئے نہایت اہم ہے۔یہ کسان کو خوراک اور ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے علاوہ ضرورت کے وقت نقد سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے۔اس لئے یہ کسان کا بنک اکاﺅنٹ بھی کہلاتی ہے۔زراعت کے لئے آبپاشی کی اہمیت ہر کسی پر عیاں ہے۔پانی کی بروقت دستیابی خوراک کے حصول کا یقینی ذریعہ فراہم کرتی ہے۔صوبہ سرحد کا قابل کاشت رقبہ6.55ملین ایکڑ اور زیر آبپاشی رقبہ2.27ملین ایکڑ ہے۔جو قابل کاشت رقبے کا 34.65فیصد ہے۔صوبائی حکومت کو زراعت اور آبپاشی کی اہمیت کا احساس ہے۔اس لئے یہ اِن سیکٹرز کی ترقی کے لئے کوشاں ہے۔دیگر نقصانات کے علاوہ بےروزگاری کا امن و امان کی حالت پر منفی اثر کسی سے پوشیدہ نہیں۔روزگار جہاں امن و امان اور بہتر سوشل حالات کا ضامن ہے۔وہاں افراد کو ترقیاتی عوامل میں شامل کرکے ملک و قوم کی بہتری کا ذریعہ بھی ہے۔روزگار خواہ بلا واسطہ ہو خواہ بالواسطہ۔اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔صوبائی حکومت کو ان عوامل کا ادراک ہے۔اِس لئے روزگار اِس کی ترجیھات کا حصہ ہے۔امن و امان کی بہتر حالت بہتر معاشی ماحول کے احیاءکا ضامن ہوتا ہے۔جہاں مزدور۔کارکن۔کارخانہ دار وغیرہ کو جان۔مال اور عزت کی حفاظت کا یقین ہو ۔وہاں وہ بہتر معاشی اِقدامات اور ترقی کے لئے کوشش کر سکے گا۔حکومت کو اِس مسئلے کا احساس ہے۔اور مقدور بھر اِس سے عہدہ براءہونے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔صوبہ سرحد میں بڑے سرمایہ دار اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔یہاں درمیانے درجہ کے کاروباری بڑی تعداد مین مل جاتے ہیں۔یہ حضرات اپنا محدود سرمایہ چھوٹے کاروبار یا ہنر میں لگا کر معیشت کی بہتری میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔یہ چھوٹے کاروباری مجموعی طور پر روز گار فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اِن کی حوصلہ افزائی اور اِن کو بہتر حالات مہیا کرنے سے صوبے میں معاشی بہتری کا انقلاب آسکتا ہے۔ صوبہ سرحد کی حکومت نے اِن چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کا پروگارام بنا کر صوبے اور اِس کے عوام کی عظیم خدمت کر رہی ہے۔ناگزیر حالات کی بناءپر مالاکنڈ ڈویژن کے باشندوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے پشاور میں رہائش اختیار کی۔ اِن کو خوراک، چھت،صحت اور تعلیم کی سہولیات اور دیگر اِنسانی ضروریات کی فراہمی کیلئے صوبائی ح©کومت کا اہم کردار ہے۔ اِس کیلئے کثیر سرمایہ کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے صوبائی حکومت کے وسائل ناکافی ہیں۔ پھر بھی حکومت حتی المقدور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے، حالات بہتر ہونے پر اِن IDP'S کی واپسی اور آبائی علاقوں میں آباد کاری حکومت وقت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ بجٹ 2009-10 میںIDP'S کیلئے مرکزی حکومت نے 1.00ارب روپے مختص کیئے ہیں۔ صوبائی حکومت 2008-09 میں بھی اپنے وسائل وقف کرتی رہی، اور 2009-10 میں بھی اِس فرض سے چشم پوشی نہیں کرے گی۔صوبائی حکومت خدمات کی فراہمی میں مخلص ہے۔ میں ا±مید کرتا ہوں کہ اِس کے نیک اِرادوں میں عوام کی کوششیں بھی شامل ہوں گی۔ اِنشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب اِس صوبہ کے رہائشی اِن کاوشوں کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔مالی سال 2009-10 کا بجٹ بناتے وقت حکومت کے پیش نظر جو ضروری نکات تھے ان میں بہتر سوشل سروس delivery ، عمدہ نظم و نسق کی فراہمی اور عوام کی تکالیف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریلیف کی فراہمی شامل تھے۔ اب میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنا چاہتا ہوں۔آئندہ مالی سال 2009-10 میں صوبے کو حاصل ہونے والے کل وسائل کا تخمینہ 211.1 بلین روپے ہے۔ جبکہ ان وصولیات کے بر عکس اخراجات کاتخمینہ 214.2 بلین روپے ہے اس طرح اخراجات کی مد میں 3.100 بلین روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ وصولیات کی تفصیل یو ں ہے:۔مرکزی ٹیکسوں (Federal Tax Assignment) میں سے صوبہ سرحد کو 67.8 بلین(Billion) روپے وصول ہونگے۔2.5فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں متوقع آمدن 7.9 بلین (Billion) روپے ہوگی۔تیل و گیس کی رائلٹی کی مد میں 7.6 بلین (Billion) روپے کی آمدن متوقع ہے۔بجلی کے خالص منافع کی مد میں6 بلین روپے وصول ہونگے۔گرانٹ کی صورت میں صوبے کو14.8 بلین روپے کی آمدن متوقع ہے۔صوبے کو اپنے محاصل کی مد میں 7.5 بلین روپے کی آمدن متوقع ہے۔ سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 2.1بلین روپے کی آمدن متوقع ہے۔جنرل کیپٹل آمدن کی مد میں 400 ملین روپے متوقع ہیںترقیاتی آمدن کی مد میں 17.1بلین روپے متوقع ہیںجنرل کیپیٹل آمدن ( Food) کی مد میں79.8 بلین روپے متوقع ہے۔اس طرح سے کل میزان211.1 بلین روپے بنتا ہے۔آئندہ مالی سال 2009-10میں اخراجات کی مد میں بجٹ کا تخمینہ 214.2 بلین روپے لگایا گیا ہے۔جس میں 80بلین روپے اخراجات جاریہ کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔جن کی تفصیل کے مطابق صحت اور تعلیم کے لئے6بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔پولیس کو9.7بلین روپے اور پنشن کی ادائیگی کے لئے7.2ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ضلعی حکومتوں کو تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں34.9بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔اسی طرح ریونیو اور اسٹیٹ کو ریلیف اِقدامات کے لئے1.1بلین روپے مہیا کئے جا رہے ہیں۔گندم پر سبسڈی کے لئے2بلین روپے، قرضوں کی ادائیگی کے لئے8.1بلین روپے اور متفرق اخراجات کے لئے11بلین روپے مہیا کئے جا رہے ہیں۔اِن اخراجات کے علاوہ دیگر اخراجات میں جاریہ کیپیٹل اخراجات کے لئے3.2بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص شدہ رقم 51.2بلین روپے ہے۔ اور خوراک کی مد میں کیپیٹل اِخراجات کے لئے79.7بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس طرح سال 2009-10 کیلئے کل اخراجات کا تخمینہ 214.2 بلین بنتا ہے۔ترقیاتی اِخراجات کے علاوہ صوبہ کو مختلف سیکٹروں میں متعدد غیر ترقیاتی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اِن اخراجات سے ادارے چلائے جاتے ہیں۔اور اُن کے ذریعے ترقیاتی عمل جاری رکھا جاتا ہے۔لیکن ترقی کے لئے صرف محدود سکیموں میں سرمایہ کاری کافی نہیں ہوتی۔یہ اِدارے ایک پروگرام کے مطابق خدمات کی فراہمی کو جاری رکھتی ہیں۔ان خدمات کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔اِس شعبے کے غیر ترقیاتی اخراجات دیگر شعبوں پر حاوی ہیں۔مالی سال2009-10کے دوران یہ شعبہ27471مختلف سکولوں کا انتظام اور وہاں تعلیم دینے کا بندوبست کرے گا۔ نئے سکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی کے لئے بجٹ تخمینے میں357نئی آسامیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مہنگائی اور اعلٰی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کی مد میں جاری اخراجات کےلئے 2247 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔جو پچھلے مالی سال سے18فیصد زیادہ ہیں۔صحت کے لئے جاری اخراجات کی مد میں4025ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔جو پچھلے مالی سال سے13.87فیصد زیادہ ہیں۔اس کے علاوہ صوبہ سرحد کے بڑے ہسپتالوں کے لئے گرانٹ اِن ایڈ(Grant in aid)کی صورت میں2170 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ یہ بڑے ہسپتال خودمختار (Autonomous)حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔صوبائی حکومت اِن کی ضروریات کو ہر ممکن حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔کیونکہ یہ ہسپتال صوبے کی عوام کیلئے خصوصی علاج کا واحد ذریعہ ہیں۔مخصوص بیماریوں کے ہسپتالوں۔صحت کے رفاعی اِداروں اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو حکومتGrant in aidکی شکل میں اِمداد فراہم کرتی ہے۔ آئندہ سال کے بجٹ میں اِن اخراجات کا تخمینہ353.5ملین روپے ہے۔ صوبائی حکومت نے علاج معالجے کی سہولت کے لئے Endowment Fundقائم کیا ہے۔جس سے کینسر۔ہیپٹائٹس۔دل کی بیماریوں وغیرہ کے مہنگے علاج کے لئے نادار مریضوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔اس فنڈ کا حجم100ملین روپے ہے۔جو مالی سال 2009-10 کے بجٹ تخمینے کا حصہ ہے۔انفراسٹرکچر کے لئےM&Rکی اہمیت ہر کسی پر واضح ہے۔سڑکوں۔ہائی ویز اور پُلوں کیM&Rکے لئے ہر سال بجٹ میں فنڈ مختص کئے جاتے ہیں۔2009-10کے صوبائی بجٹ میں اِس کا حجم1075ملین روپے ہے۔ بلڈنگ سیکٹر میںM&Rفنڈ سے سرکاری عمارات کی مرمت کی جاتی ہے۔ماضی میں یہ کام پراونشل مینٹننس سیل(Provincial Building Maintenance Cell (PBMC) کیا کرتا تھا۔مالی سال2009-10سے یہ کام دوبارہ ورکس انیڈ سروسز کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اس کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 250 روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔امن و امان کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے صوبے کی معیشت اور ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔صوبہ سرحد اِس وقت امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہے۔حالات کی اصلاح کے لئے پولیس کو عمومی حالات کی نسبت زیادہ وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ مالی سال 2009-10میں9677ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔جو کہ پچھلے سال سے47فیصد زیادہ ہے۔اِضافی رقم4421نئی آسامیوں، تنخواہ میں اضافے، POL اور دیگر ساز و سامان کی خریداری وغیرہ پر خرچ ہوگی۔آپکی اجازت سے موجودہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا ایک مختصر جائزہ پیش کروں گا۔سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے مالی سال 2008-09 کا ابتدائی حجم 41.545 بلین روپے تھا۔ جبکہ نظر ثانی شدہ تخمینہ 39 بلین روپے ہے جو ابتدائی حجم سے 2.545 بلین روپے کم ہے۔صوبائی وسائل سے چلنے والے منصوبوں کے لئے 27.148 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے تھے۔ جس کا نظر ثانی شدہ تخمینہ 29.286 بلین روپے رہا۔ اس طرح نظر ثانی شدہ تخمینہ مختص رقم سے 7.87فیصد زیادہ ہے۔بیرونی امداد کے تحت چلنے والے 40 منصوبوں کیلئے 4.617 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے ۔ جبکہ نظر ثانی شدہ رقم 5.09 بلین روپے رہی۔ اور اس طرح اس میں 473 ملین روپے کا اضافہ ہوا ۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں منصوبوں کی کل تعداد 900 تھی جس میں 604 منصوبے جاری اور 296نئے منصوبے تھے۔ مالی سال 2008-09 کے ترقیاتی پروگرام میں تعلیم کے شعبے میں 88 منصوبوں کے لئے 5.507بلین روپے مختص کئے گئے ۔ جن میں 32 منصوبے مکمل ہوئے ۔ محکمہ خواندگی و ثانوی تعلیم کے لئے DFIDکے تحت 1.541 بلین روپے دو منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے جن میں درسی کتب کی مفت تقسیم اور ہائی سکولوں کی ذہین طالبات کیلئے وظائف کے منصوبے شامل ہیں۔ صحت کے شعبے کے124( 85جاری اور 39 نئے) منصوبوں کے لئے3.94 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے ۔ جن میں 28 نئے منصوبے مکمل کئے گئے ۔ مالی سال 2008-09میں زراعت کے شعبے کے55(25 جاری، 30نئے) منصوبوں کے لئے715.428ملین روپے مختص کئے گئے ۔ جن میں 16 منصوبے مکمل کئے گئے۔حکومت نے سماجی بہبود و ترقی خواتین کے اصلاحاتی پروگرام کے ذریعے خصوصی افراد ، خواتین، بچوں اور مَردوں کی فلاح و بہبود کے لئے مالی سال 2008-09 کے 31منصوبوں کے لئے99.551ملین روپے مختص کئے۔ موجودہ مالی سال کے دوران ضلع چارسدہ اور صوابی میں سلائی کڑھائی کے نئے مراکز قائم کئے گئے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال چارسدہ اور صوابی میں سرکاری سرائے پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ پشاور میں موجود نابینا بچوں کے سکول کی تعمیر نو کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ہری پور میں مصیبت زدہ خواتین کے لئے دارالامان قائم کیا جارہا ہے۔ اور صوبائی سطح پر چائلڈ ویلفیئر و پروٹیکشن بیورو قائم کیا گیا ہے۔ اس شعبے میں چار منصوبوں پر کام مکمل ہوا۔موجودہ مالی سال کے لئے شعبہ جنگلات ، سیریکلچر، جنگلی حیات اور ماہی پروری کے 70منصوبوں کےلئے 477.326 بلین روپے مختص کئے گئے۔ جن میں سے 18 منصوبے مکمل کئے گئے۔ مکمل شدہ منصوبوں میں26 ایکڑ پرمحیط نئی نرسریاں، 4618 ایکڑ پر شجر کاری، 3,855 ایکڑ پر تخم ریزی، 48,630ایکڑ پر جنگلات کی حد بندی اور3,85,000 پودہ جات کی تقسیم کی گئی۔ علاوہ ازیں مارخور ہنٹنگ ٹرافی پروگرام کے تحت2,94,000ڈالر بطور پرمٹ فیس وصول کئے گئے جس کا 80 فیصد چترال اور کوہستان کی مقامی آبادیوں میں تقسیم کیا گیا۔شعبہ آب پاشی کے 41 منصوبوں (27 جاری،14 نئے) کے لئے 1.2 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے۔ جن میں سے چھ منصوبے مکمل کئے گئے۔شعبہ صنعت و حرفت کے لئے موجودہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں 60 منصوبوں(24 جاری و 36 نئے) کے لئے 1.1بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے جن میں سے 15 منصوبے موجودہ مالی سال کے اختتام سے پہلے مکمل کئے جائےں گے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ صوبائی حکومت صوبے میں تعلیم کے شعبے پر سب سے زیا دہ توجہ دے رہی ہے۔ ہمارے مسائل کا حل شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔ ہماری حکومت صوبے کے مالی و سائل کے مطابق صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کا قیام صوبائی حکومت کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الحمداللہ یونیورسٹی نے کلاسیں شروع کر دی ہیں۔ صوبائی حکومت نے مالی سال 2008-09 میں 85 ملین روپے بطورِ گرانٹ فراہم کئے ہیں اور آئےندہ مالی سال کے لئے 50 ملین روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق یونیورسٹی کے لئے زمین کی خریداری صوبائی حکومت کرے گی جس کے لئے آئےندہ مالی سال میں 235 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مذکورہ یونیورسٹی کے قیام سے جہاں علاقے بھر میں تعلیم عام ہوگی وہاں مردان اور گرد و نواح کے طلباءپر مالی بوجھ میں خاطر خواہ کمی آئےگی۔ صوبائی حکومت پرائمری سے ثانوی سطح تک طلباءکے لئے تدریسی کتب مفت فراہم کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے آئےندہ مالی سال میں 800 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں قابل اور نمایاں پوزیشن حاصل کر نیوالی سرکاری ہائی سکولوں میں زیرِ تعلیم طالبات کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ جس پر آئےندہ مالی سال میں 700 ملین روپے خرچ کئے جائےں گے۔ حکومت نے نادار اور ذہین طلباءو طالبات کو صوبے کے معیاری پرائےویٹ تعلیمی اداروں میں سرکاری خرچ پر تعلیم دینے کےلئے شروع کی گئی سکیم کے لئے آیئندہ مالی سال میں 10 ملین روپے مختص کئے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پسماندہ اضلاع میں خواتین اساتذہ کو ماہانہ 1000روپے بطور سپیشل الاو¾نس اور پک اینڈ ڈراپ الاﺅنس بھی دیا جائےگا۔صوبائی حکومت صحت کے شعبے میں صوبے کے عوام کو معیاری طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے پرُ عزم ہے۔ ہسپتالوں کی خود مختاری کو بہتر بنانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں ۔ جن میں شفاف طریقہ کار کے بعد چیف ایگزیکٹیوز کی تعیناتی شامل ہے۔ صوبائی حکومت ایمرجنسی ایمبولینس سروس 1122 Rescue کو جلد متعارف کرارہی ہے۔ زچہ بچہ کی نگہداشت اور متعدی امراض جیسے ٹی بی ، یرقان اور ایڈز وغیرہ کی روک تھام کو بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔صوبہ سرحد میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ صوبہ سرحد کی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر تخریب کار آسانی سے بارڈر عبور کر کے ہماری حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ تخریب کاری کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے صوبائی حکومت حتی المقدور کوشش کر رہی ہے۔ صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کے اعلان کی روشنی میں پولیس ایلیٹ فورس کا قیام ، پولیس فورس میں 1762 اضافی آسامیوں کی منظوری ، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی 11 آسامیوں کی منظوری ان کوششوں کا حصہ ہے۔صوبائی حکومت نے آئےندہ مالی سال 2009-10 کے دوران ضلع مانسہرہ میں پولیس فورس میں اضافہ کرتے ہوئے 137 نئی آسامیوں کی منظوری دی ہے۔ پولیس کے لئے ٹرانسپورٹ کی خریداری کے لئے 100 ملین روپے فراہم کئے جائےں گے۔ اس کے علاوہ مشینری و آلات کی خریداری کے لئے 4 کروڑ روپے ، اسلحہ کی خریداری کے لئے 31 ملین روپے، ایلیٹ فورس کی تربیت کے لئے 71 ملین روپے فراہم کئے جائےں گے۔صوبہ سرحد بنیادی طور پر ایک زرعی صوبہ ہے۔ 80 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ جس میں 70 فیصد براہِ راست زراعت سے وابستہ ہے۔ صوبائی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ زراعت کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔ صوبہ خوراک کی قلت سے دوچار ہے۔ ہم بمشکل اپنی خوراک کی ضروریات کا 30 فیصد حصہ اپنی پیدا وار سے پورا کرتے ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ ضروریات پنجاب سے گندم اور آٹے کی در آمد سے پوری کرتے ہیں۔ صوبے میں مختلف پھلوں کے باغات کر فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مگس بانی (شہد کی مکھی) کو فروغ دیا جائےگا۔ جانوروں اور مرغیوں کی ویکسینیشن اور علاج پر خصوصی توجہ دی جائےگی۔صوبائی حکومت کو پنجاب اور پاسکو سے گندم کی خریداری کو یقینی بنانے کے لئے ہر سال سبسڈی کی مد میں اچھی خاصی رقم فراہم کرنی پڑتی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے گندم کی قیمت خرید 23,750روپے فی میٹرک ٹن مقرر کی ہے۔ جبکہ فلور ملوں کو مذکورہ گندم 24,620 روپے فی میٹرک ٹن کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے ۔ گندم کی زائد قیمت ٹرانسپورٹیشن اور متفرق ذیلی اخراجات کی مد میں 14.022 بلین(Billion) روپے صوبائی حکومت کو برداشت کرنی پڑے گی۔ آیئندہ مالی سال کے بجٹ میں 2 بلین روپے فراہم کئے گئے ہیں ۔ جبکہ 2.2 بلین روپے فاٹا اور 10.022 بلین روپے وفاقی حکومت سے طلب کئے جائےں گے۔صوبہ سرحد کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ آبی وسائل سے نوازا ہے۔ صوبائی حکومت ان آبی وسائل کی استعداد کو بروئے کار لاکر صوبے کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے حتی الامکان کوشش کر رہی ہے۔صوبہ سرحد میں جنگلات کل رقبے کے 17 فیصد حصے پر محیط ہیں۔ جنگلات ہمارے صوبے کا قیمتی اثاثہ اور آمدنی کا مقعول ذریعہ ہیں۔ جنگلات کے علاوہ قدرت نے صوبہ سرحد کو انواع و اقسام کی جنگلی حیات سے بھی نوازا ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ ماہی پروری بھی اپنا منفرد کردار ادا کررہی ہے۔ صوبہ سرحد کے قدرتی آبی ذخائر بشمول دریاو¿ں، جھیلوں ، ندی نالوں او ر ڈیمز میں پائی جا نیوالی مچھلیوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔ فش فارمنگ کے فروغ کے لئے صوبائی حکومت مثبت اقدامات کر رہی ہے۔ اب آ پ کی اجازت سے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے مالی سال2009-10 پیش کرتا ہوں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام بناتے وقت اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈ مہیا کئے جائےں۔ اسکے علاوہ صحت، تعلیم ، پینے کے صاف پانی، آبپاشی اور زراعت کے شعبوں کو خصوصی طور پر زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا کئے جائےںگے۔سالانہ ترقیاتی پروگرام 2009-10 کا تخمینہ 51.157 بلین روپے ہے جو مالی سال 2008-09 کے تخمینے سے 9.613 بلین روپے یعنی 23 فیصد زیادہ ہے۔ترقیاتی پروگرام میں صوبائی حکومت کا اپنا حصہ 32.546 بلین (Billion) روپے ہے۔ جو مالی سال 2008-09 کے منظور شدہ بجٹ تخمینہ 27.148 بلین (Billion) روپے سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام 861 منصوبوں پر مشتمل ہے۔ جس میں 650 جاری اور 211 نئے منصوبے شامل ہیں۔سالانہ ترقیاتی پروگرام 2009-10 میں 6.644 بلین (Billion) روپے کی بیرونی امداد بھی شامل ہے۔وفاقی حکومت نے کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے صوبہ سرحد کی اعانت کی ہے۔ صوبے میں خصوصی / پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت 30 ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد ہو رہاہے۔ جن کیلئے 10.05 بلین روپے مہیا کئے جا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد بڑے منصوبے جیسے گومل زام ڈیم، پشاور سدرن بائی پاس روڈ وغیرہ کیلئے تقریباً 17 بلین روپے مختص کئے ہیں۔ جو وفاقی اداروں کے ذریعہ صوبہ سرحد میں خرچ کئے جائیں گے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے صوبے کی معاشی ترقی میں انقلاب آئے گا اور فوری طور پر روزگار کے مواقع بھی فراہم ہونگے۔ ہم اس کیلئے مرکزی حکومت کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔مالی سال 2009-10 میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ صحت کے شعبے میں 108 سیکمیں شامل کی گئی ہیں۔ جن میں85 جاری اور 23 نئی ہیں۔ مذکورہ سکیموں کےلئے 4.334 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جاری سکیموں کے لئے3649.156 ملین اور نئی سکیموں کے لئے 684.712 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ چیدہ چیدہ منصوبوں میں مردان میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ہسپتال کا قیام ضلعی ہسپتال مانسہرہ اور بٹگرام میں ہاسٹلز کی تعمیر،خیبر تدریسی ہسپتال اور خیبر میڈکل کالج کی بہتری و بحالی، یرقان (Hepatitis)کے 5000 مریضوں کا علاج،مردان میں باچا خان میڈیکل کالج کا قیام،میڈیکل کالجوں کے لئے جنریٹرز کی فراہمی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی عمارت کے لئے110 ملین روپے کی فراہمی اور،خیبر گرلز میڈکل کالج کے ہاسٹلز کی تعمیر شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ صوبہ سرحد میں خواندگی کی شرح کو مناسب حد تک لے جانے کے لئے صوبائی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیم سماجی و معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مالی سال 2009-10 کے ترقیاتی پروگرام میں اس شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ 6.06 بلین (Billion) روپے کی لاگت سے اس شعبے میں کل91سکیموں پر ترقیاتی کام ہوگا جس میں 58 جاری اور 33 نئے منصوبے شامل ہیں۔ چیدہ چیدہ منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے پشتو لغت (دریاب) کی بہتری کے لئے فنڈز کی فراہمی150پرائمری سکولوں کا قیام اور مختلف سکولوں میں 500 اِضافی کلاس رومز کی تعمیر120 پرائمری اور100مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن (up-gradation) صوبہ سرحد میں گورنمنٹ مڈل اور ہائی سکولوں کی عمارتوں کی از سرِ نو تعمیر و بحالی400سکولوں میں چار دیواری۔صاف پینے کا پانی اور لیٹرین کی فراہمی، زنانہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لئے ششم تا دہم کی طالبات کو200روپے ماہوار وظیفہ کی فراہمی،گورنمنٹ کالجوں میں طلباءاور اساتذہ کے لئے ہاسٹلوں کی تعمیر،گورنمنٹ کالجوں میں سائنس ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پوسٹ گریجویٹ بلاکوں کی تعمیر،طالبات اور خواتین اساتذہ کو باوقار طریقے سے کالج آنے جانے کے لئے بسوں کی فراہمی،کالج اساتذہ کو ملازمت سے قبل تربیت دینے کیلئے اکیڈمی کا قیام شامل ہیں۔زراعت کے شعبے کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2009-10 میں 796.663 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جن میں 47 جاری منصوبوں کے لئے574.567 ملین روپے اور 17نئے منصوبوں کیلئے 222.096 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ نئے منصوبوں میں چند منصوبے یہ ہیں ۔چھوٹے کاشتکاروں کی زمین کی ترقی اور قابل پیداوار بناناآبپاشی کی نالیوں کو بہتر بناناجانوروں کی ڈسپنسریوں کی تعمیر اور موبائل ڈسپنسریوں کی توسیع،دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لئے پائلٹ پراجیکٹ،100 نئے بلڈوزر کی خریداری،65 پانی ذخیرہ کرنے کے تالاب، 65 چیک ڈیم اور130 حفاظتی ،پشتوں کی تعمیر اور100 ڈگ ویل/ٹیوب ویل کی تنصیب،صوبائی حکومت صوبے میں آمدو رفت کو زیادہ سے زیادہ مو¿ثر اور آسان بنانے کے لئے اس شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اس شعبے کو مو¿ثر اور با سہولت بنانے سے نہ صرف معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے بلکہ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس شعبے میں آیئندہ مالی سال کے لئے ترقیاتی پروگرام میں 115 منصوبے شامل ہیں ۔ جن میں 105جاری اور 10 نئے منصوبے ہیں۔ مجموعی طور پر 5.137 بلین(Billion) روپے مختص کئے گئے ہیں۔ چیدہ چیدہ منصوبے یہ ہیں ۔پشاور ورسک روڈ کو دو رویہ کرنا،مردان صوابی روڈ تا شہباز گڑھی روڈ کی بحالی،ضلع چارسدہ میں نستہ برانچ اور خان ماہی برانچ روڈ کی تعمیر،اکبر پورہ دلہ زاک روڈ کی تعمیر و بحالی،صوبائی ہائی وے کے سری کوٹ تا پنیاں سیکشن کی بہتری و کشادگی،مختلف اضلاع میں650کلومیٹر سڑکوں کی کشادگی ، بہتری و بحالی اور12پُلوں کی تعمیر کے لئے خطیر رقم کی فراہمی شامل ہے۔سڑکوں کے علاوہ عمارات کے شعبے کی کل 61 سکیموں کے لئے 856.421 ملین روپے مختص کئے ہیں جن میں 53 منصوبے جاری اور 8 نئے ہیں۔ چند نئے منصوبے یہ ہیں ۔صوبے کی جیلوں میں کیمروں اور سکینرز کی تنصیب،خوراک کے ذخیرے کے لئے گوداموں کی تعمیر،گوادر بلوچستان میں فرنٹیئر ہاو¿س کی تعمیر کیلئے فنڈز کی فراہمی، سول سیکریٹریٹ میںخان عبدالولی خان ملٹی کمپلیکس کی تعمیرشامل ہیں۔جنگلات قدرت کا دیا ہوا ایک قیمتی اثاثہ ہے جو ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کے علاوہ صوبے کی آمدنی کا ایک معقول ذریعہ بھی ہیں۔ صوبے کی خوش قسمتی ہے کہ صوبہ سرحد میں کل رقبہ کا 17 فیصد حصہ جنگلات پر محیط ہے اور حکومت کی یہ حتی الامکان کوشش ہے کہ صوبے میں جنگلات کو وسعت دینے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ اگلے مالی سال کے لئے جنگلات کے شعبے کی ترقی کے لئے 201.632 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام میں کل 54 منصوبے شامل ہیں۔ جن میں 34 جاری اور 20 نئے منصوبے ہیں۔ جنگلات کے علاوہ صوبہ سرحد میں ماہی پروری کے شعبہ کو فروغ دینے کےلئے آئےندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں14سکیموں کے لئے 152.456ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح جنگلی حیات کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے 92.760ملین روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔اِس میں25سکیموں پر کام ہوگا۔سیری کلچر(ریشم سازی) کی صنعت کے فروغ کے لئے5ترقیاتی منصوبوں کے لئے21.777ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ماحولیات کی مد میں40.138ملین روپے کی لاگت سے9ترقیاتی منصوبوں پر عمل ہوگا۔صوبے میں عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لئے جہاں ایک الگ محکمہ قائم کیا گیا ہے۔ وہاں419.5 ملین روپے کی لاگت سے 5 سکیمیں ترقیاتی پروگرام میں شامل کی گئی ہیں۔ عوام کو آلودگی سے پاک ، عوام دوست ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے کیلئے 200 سی این جی (CNG) بسیں خریدنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ مذکورہ منصوبے پر عمل در آمد کے لئے ایک انتظامی یونٹ کا قیام ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا ہے جس پر 7 ملین روپے خرچ کئے جائےنگے۔ علاوہ ازیں صوبے میں روٹ پرمٹ کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے ترقیاتی پروگرام میں 2 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پبلک پرایﺅیٹ پارٹنرشپ کے تحت پشاور میں جنرل ٹرک اسٹینڈ کے قیام کے لئے400 ملین روپے کی لاگت سے اراضی خریدی جائےگی۔محکمہ سماجی بہبود کے لئے آیئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں30منصوبوں کے لئے 122.509 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ نئے منصوبوں میں رنگ مالا ہسپتال مالاکنڈ میں نشے کے عادی مریضوں کے لئے ماڈل ڈرگ سینٹر کی تعمیر نو اور پشاور میں غریب اور بے سہارا بچوں کی حفا ظت اور بحالی کے لئے ایک پائلٹ پراجیکٹ بھی شامل ہے۔ خواتین کی بہبود کیلئے مختص شدہ رقم کے تحت 600 بے سہارا خواتین کو ہنر کی تعلیم دی جائے گی اور 100 کام کرنے والی خواتین کو رہائش کی سہولت فراہم کی جائے گی۔صوبائی حکومت اقلیتوں کو تخفظ اور ہرقسم کی سہولیتں بہم پہنچانے کے لئے حتی الامکان کوشش کر رہی ہے۔ اقلیتں نہ صرف ہمارے دست و بازو ہیں بلکہ صوبے کی معیشیت کو فروغ دینے اور ترقی کے ہر عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ صوبائی حکومت نے اگلے مالی سال کے دوران اقلیتوں کے لئے رہائشی کالونیاںتعمیر کرنے کے لئے5 ملین روپے مختص کئے ہیں۔ علاوہ ازیں صوبہ سرحد میں اقلیتوں کے لئے فنی مہارت میں وسعت دینے کے لئے منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے جس پر 5 ملین روپے خرچ کئے جائےں گے۔صوبائی سطح پر آئین ِ پاکستان کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق و ترقی کے لئے صوبائی حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔جن کے تحت مذہبی مقامات کی بحالی و مرمت اور انہیں سہولیات بہم پہنچائی جائیں گی۔اِس کے علاوہ وادی کالاش کی اقلیتی برادری کے لئے خصوصی مراعات کا منصوبہ شامل ہے۔یوں اِس شعبے میں10ترقیاتی منصوبوں کے لئے35.710ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔اِن میں 5جاری اور5نئے منصوبے شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں آبادکاری کے رجحان میں اِضافہ سے وہاں کے بندوبستی محکموں کی ذمہ داریوں میں اِضافہ ہوا ہے۔پشاور شہر کو ترقی اور وسعت دینے کے لئے اِس سال بھی شہری ترقی کے شعبہ میں متعدد منصوبوں پر کام جاری رہے گا۔نیز کئی نئے منصوبے۔جن میں بھانہ ماڑی اور بیری باغ تا پنچ کٹھ چوک روڈ کے چند حصوں کی تعمیر و مرمت۔سُپیریر سائنس کالج روڈ اور صوبے کے میجر اربن سنٹرز میں اِنفراسٹرکچر کی تعمیر۔نئے اربن ماڈل ٹاﺅن شپس (Townships)کے قیام۔گرین پشاور پراجیکٹ۔صدر روڈ اِنٹر سیکشن اور گورنر ہاﺅس سڑک کی بہتری کے منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔ اِس شعبے کے 14منصوبوں کے لئے195.645ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔اِن میں10جاری اور4نئے منصوبے شامل ہیں۔پن بجلی کی ترقی صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد نے صوبائی اسمبلی کے پہلے خطاب میں یہ واضح کیا تھا کہ پن بجلی کے شعبے کی ترقی ہی میں ہماری بقاءہے۔ اس شعبے کو ترقی دینے کےلئے ایک الگ محکمہ "انرجی اینڈ پاور "کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ اس شعبے کو موزوں طریقے سے ترقی دی جاسکے۔اس محکمہ کے قیام سے وفاق کے ساتھ تمام حل طلب مسائل کو بھی احسن طریقے سے نمٹایا جارہاہے۔ ا س کے علاوہ سرمایہ کاروں کو مزید مراعات دینے کےلئے ہائیڈل پالیسی 2006میں ضروری ترامیم بھی زیرِغور ہیں۔سالانہ ترقیاتی پروگرام 2009-10 میں اس شعبہ میں کل 11منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔ جن میں 6جاری منصوبے اور 5نئے منصوبے شامل ہیں۔ نئے منصوبوں میں84 میگاواٹ مٹل تان سوات،28 میگاواٹ سمرگاہ، 18 میگاواٹ کوٹو، 7.5میگاواٹ جبوڑی اور 8 میگاواٹ کروڑہ کی تعمیر کا کام ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے شروع کیا جائے گا۔جبکہ عوام کو واپڈا کے میٹر چیکنگ کے عملے کے غیر مناسب رویہ سے نجات دلانے کےلئے میٹر لیبارٹر ی قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے مزید6منصوبوں کی مطالعاتی جائزہ رپورٹوں پر بھی کام شروع کیا جائے گا۔ان منصوبوں سے 180میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی ۔ اس سال اِس شعبے کےلئے ADP میں441.308ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ آب پاشی کے لئے اگلے مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں 1406.496 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں 33 جاری اور 19 نئے منصوبے شامل ہیں۔ نئے منصوبوں کے لئے485.3 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں چیدہ چیدہ منصوبے یہ ہیں۔20 آب پاشی ٹیوب ویلوں کی بحالی،چھوٹے تالابوں کی تعمیر (phase-2)،نہروں کے کنارے سڑکوں کی تعمیر( حصہ دوم)،سیلاب سے بچاو¿ کی موجودہ سکیموں کی بحالی اور توسیع،ضلع پشاور اور ہری پور میں 20 عددٹیوب ویلوں کی تعمیر اور ،پشتون گڑھی ضلع نوشہرہ میں نالوں ، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر۔صوبائی وزیر نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔ اس شعبے کی ترقی سے جہاں صوبے کی معیشیت کو استحکام ملے گا۔ وہاں بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ صوبہ سرحد کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل نے نواز رکھا ہے۔ معدنیات اور قیمتی پتھروں سے استفادہ اور وسائل کو بڑھانے کے لئے جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔صنعتی شعبہ میں محکمہ صنعت ، سمال انڈسٹریز، سرحد ترقیاتی ادارہ، مزدوروں کی فلاح و بہبود ، فنی تعلیم و افرادی قوت اور معدنیات کے شعبے شامل ہیں۔ اگلے مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں 42 جاری اور 18 نئے منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 1173.660 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ چیدہ چیدہ منصوبے یہ ہیں:۔موجودہ سمال انڈسٹریل اسٹیٹ صوبہ سرحد میں انفرا سٹرکچر سہولتوں کی بحالی،پٹی ٹریننگ سینٹر رحیم آباد کی دوبارہ بحالی،چترال میں ماربل اور گرینائٹ کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے زمین کی خریداری، انڈسٹریل اسٹیٹ پشاور اور نوشہرہ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے آگ بجھانے اور جان بچانے کے آلات کی خریداری،گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی بنوں اور گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹییٹوٹ بونیر میں میکا ٹرانکس اور مائننگ کے شعبوں کے لئے آلات اور فرنیچر کی خریداری،گورنمنٹ کمرشل ادارہ واڑی اپر دیر میں فرنیچر اور آلات کی خریداری اورصوبہ سرحد کے جنوبی علاقوں میں معدنیات کی تلاش شامل ہیںصوبہ سرحد اپنے محل وقوع ، ثقافتی ورثے اور گندھارا تہذیب کے حوالے سے ہمیشہ منفرد اہمیت کا حامل رہا ہے۔ صوبائی حکومت نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے گندھارا تہذیب کے تاریخی خدوخال کو سیاحوں کے لئے مزید پرکشش بنانا چاہتی ہے اس مقصد کے لئے 23 جاری اور 11 نئے منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 332.622 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔جن میں80 ملین روپے سیاحتی مقامات کو پُر کشش بنانے کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ آیئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں شامل چند نئے منصوبے یہ ہیں۔غنی ڈھیری چارسدہ میں لائبریری کی عمارت کی مرمت اور بہتری،قیوم اسٹیڈیم پشاور کے پرانے پویلین کی از سرِ نو تعمیر،ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم پشاور کی بہتری و بحالی،لنڈی ارباب اور بڈھ بیر پشاور میں کھیل کے میدانوں کی تعمیر اور،صوبہ سرحد میں کھیل کی موجودہ سہولتوں کی ترقی و ترویج،عالمی سطح پر بدلتی ہوئی سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کے پیش نظر مالی سال2009-10میں اِس شعبے کے فروغ پر157.827ملین روپے کی لاگت سے 22 منصوبوں پر عمل ہوگا۔سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اس شعبے کے لئے ایسی سکیمیں تجویز کی گئی ہیں جن سے عوام بہتر طور مستفید ہوسکیں۔ ان میں لیبارٹریوں کا معیار بہتر بنانا اور گزشتہ سال میں جاری سکیموں کو مزید وسعت دینا شامل ہے۔ علاوہ ازیں آئی۔ ٹی کے شعبہ میں ایسی سکیمیں تجویز کی گئی ہیں۔ جن میں صوبے کے نوجوانوں کی بہتری ہوسکے۔ تاکہ وہ اپنے لئے آمدنی کا مناسب ذریعہ حاصل کر سکیں۔ علاوہ ازیں پولیس کے نظام کو بھی مزید کمپیوٹرائزڈ کیا جائےگا۔ تاکہ اسکی کارکردگی میں نمایاں بہتری آسکے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ صوبہ سرحد میں امن وامان کے بگڑتی ہوئی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس صورت ِ حال نے نہ صرف صوبے کی معاشی حالت کو متاثر کیا ہے بلکہ روز مرہ کی سماجی زندگی میں بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔ موجودہ صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اُن پر قابو پانے کےلئے صوبائی حکومت نے گذشتہ سال کی طر ح اس سال بھی موثر اقدامات کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس کے تحت پولیس کے شعبے کو مزید مو ثر اور فعال بنانا، پو لیس کو جدید طرز کے اسلحہ کی فراہمی ، تباہ شدہ املاک کی از سرنو تعمیر کے علاوہ پولیس فورس کی معاشی حالت میں بہتری لانے کے کئی منصوبے شامل ہیں ۔اس شعبے کےلئے سالانہ ترقیاتی پرگرام2009-10 میں 1138 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سرحد میں غربت کی بڑھتی ہو شرح اورغیر مستحکم معاشی و معاشرتی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے تہیہ کیا ہے، کہ ایسے اقدامات اُٹھائے جائیںجو صوبے کے عوام کو غربت کی دلدل سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوں۔اِ س سلسلے میں وزیراعلیٰ کی ہدایت پر غربت کے خاتمے کےلئے حکومت نے 1500 ملےن روپے کی رقم سے اےک جامع پروگرام شروع کےا ہے۔ جس کے تحت صوبے کے غرےب عوام کو بنےادی ضرورےات زندگی کی فراہمی کی کوشش کی جائے گی۔ اس پروگرام کوPDWP کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کےلئے SRSP کو رقم بھی فراہم کردی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس پروگرام کے تحت 500 ملین روپے ترقیاتی اورکمیونٹی کے کام کی استعداد بڑھانے کےلئے مختلف پروگراموں کے تحت یونین کونسلز کے ذریعے منصوبوںکی شناحت مکمل کی جا چکی ہے اور ان پر عمل درآمد جلد شروع کیا جائےگا۔تعمیر سرحد پروگرام کے تحت صوبائی اسمبلی کے ممبران کو اپنے حلقوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے 1240 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم سے ممبرانِ اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں میں عوامی ضروریات کے مطابق ترقی کے عمل کو تیز تر کرنے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں ضلعی سطح پر ترقی کے عمل کو مزید تیز کرنے کے لئے 1341.735 ملین روپے ضلعی حکومتوں کو صوبائی فنانس کمیشن کے فارمولے کے تحت فراہم کئے جائےں گے۔ حکومت ترقیاتی عمل کو تیز سے تیز ترکرنے اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ امید کامل ہے کہ حکومت کی خصوصی دلچسپی کے نتائج عوام کے سامنے جلد آنا شروع ہو جائےں گے۔سال 2009-10 میں شعبہءتحقیق و ترقی کے 11 منصوبوں کیلئے 114.895 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جن میں 7 جاری اور 4 نئے منصوبے شامل ہیں۔علاقائی ترقی کے شعبہ میں مالی سال 2009-10 کے دوران 38 منصوبوں کیلئے 7772.61 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ان میں 30 جاری اور 8 نئے منصوبے شامل ہیں۔ ان پروگراموں کا مقصد ایک جامع منصوبے کے ذریعے مخصوص علاقوں میں مختلف شعبوں کی ترقی و کارکردگی کو اس حد تک بڑھانا ہوتا ہے جس سے علاقے کے لوگوں کی معاشی و سماجی استحکام اور معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ میں وسائل میں اضافے کیلئے چند تجاویز پیش کرتا ہوں۔اب میں چند اہم امور کی جانب ا ٓپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ صوبہ سرحد کے دور افتادہ ضلعوں بشمول چترال اور کوہستان میں Unattractive Area Allowance کی شرح نہایت کم ہے ۔ ان اضلاع کے سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی اور فرائض منصبی کو احسن طور سر انجام دینے کے لئے صوبائی حکومت نے اضلاع چترال اور کوہستان میں مذکورہ الاو¿نس کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ضلع چترال کیلئے بنیادی سکیل 1 تا 15 کیلئے سابقہ الاﺅنس150 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 1700 روپے ماہانہ ، سکیل 16 کیلئے 250 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 3000 روپے ماہانہ اور سکیل 17 اور اس سے اوپر کیلئے 300روپے ماہانہ سے بڑھاکر 4500 روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح ضلع کوہستان کیلئے بنیادی سکیل 1 تا 15 کیلئے سابقہ الاﺅنس150 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 1500 روپے ماہانہ ، سکیل 16 کیلئے 250 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 2500 روپے ماہانہ اور سکیل 17 اور اس سے اوپر کیلئے 300روپے ماہانہ سے بڑھاکر 4000 روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ الاو¿نس سے جہاں سرکاری ملازمین کو مالی فائدہ حاصل ہوگا۔ وہاں سرکاری دفاتر میں کام کی استعداد بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔حکومت صوبہ سرحد کو متاثرین مالاکنڈ کی تکالیف کا پورا احساس ہے۔ ان کی خوراک اور رہائش کے بندوبست کے علاوہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کیمپوں میں تولید شدہ ہر بچے کی ماں کو فوری ضروریات کیلئے مبلغ 10,000/- روپے ادا کئے جائیں گے۔وہ طلبہ جن کا تعلق مالاکنڈ کے متاثرین میں سے ہے کے کالج اور یونیورسٹی کے طلباءکو ایک سال کیلئے فیس اور ہاسٹل کا بورڈنگ خرچ حکومت صوبہ سرحد برداشت کرے گی۔حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بنیادی پے سکیل 1تا 16 کے سرکاری ملازمین کو پروفیشنل ٹیکس سے مثتثنیٰ کیا جائے۔ اس فیصلے پر یکم جولائی 2009 سے عمل درآمد ہوگا۔وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یکم جولائی 2009 سے 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت صوبے کے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یکم جولائی سے 15 فیصد اضافہ کرے گی جس پر مجموعی طور پر 3.9 بلین(Billion) روپے کی لاگت آئےگی۔ انھوں نے بتایا کہ آیئندہ مالی سال 2009-10 کے دوران 500 ملین روپے کی لاگت سے ایک صوبائی روزگار فنڈ قائم کیا جائےگا جس سے بے روز گار افراد /نوجوانوں بالخصوص دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو نرم شرائط پر قرضے فراہم کئے جائےنگے۔ یہ قرضہ جن مقاصد کے لئے فراہم کیا جائےگا ان میں چھوٹے پیمانے پر کاٹیج انڈسٹری،فوڈ پراسسینگ انڈسٹری،چھوٹے پیمانے پر ٹریڈنگ،دکانیں اور ہوٹل قائم کرنا،5ایکڑ یا اس سے کم زمین کے مالکان کے لئے ٹریکٹر کی خریداری کے لئے امداد اور ،رکشہ کی خریداری کے لئے قرضہ شامل ہیں۔

Tuesday, June 16, 2009

پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے

امریکی اراکین کانگریس کیلئے تیارکردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں حکومت پاکستان کے اقدامات کے باعث اس کے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے جبکہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بھی مکمل طور پر محفوظ کرلیا ہے غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی اراکین کانگریس کیلئے خفیہ اداروں کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2004ءمیں اے کیو خان نیٹ ورک کے منظر عام پر آنے کے بعد ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاﺅ کو روکنے اور اہلکاروں کی سکیورٹی سے متعلق حکومت پاکستان کی جانب سے مناسب اقدامات کئے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ان اقدامات کے باعث پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے اپنا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ڈھانچہ مکمل طور پر محفوظ کرلیا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی سکیورٹی کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات بھی کسی حد تک ختم ہوچکے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی اثاثوں کی سکیورٹی کو بہتر بنانا اورکمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو فعال کرنا بھی شامل ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کیلئے انتہائی پروفیشنل لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے جو کہ کسی لمحے بھی غفلت کے مرتکب نہیں ہوسکتے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً ساٹھ نیوکلیئر وار ہیڈ ہیں اور ملک میں ہتھیاروں کی پیداوار کیلئے اداروں میں بھی اضافہ ہورہا ہے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دنیا کے بہترین ایٹمی ہتھیاروں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے کم نہیں اس لئے یہ تحفظات درست نہیں قرار دیئے جاسکتے کہ یہ ایٹمی ہتھیار دہشتگرد عناصر کے ہاتھ لگ سکتے ہیں )

افغان صدرحامد کرزئی کی مقبولیت میں واضع کمی آگئی کابل

افغان صدرحامد کرزئی کی مقبولیت میں واضع کمی آگئی ہے جس کے نتیجے میں ان کی صدارتی الیکشن میں کامیابی دھندلی پڑ گئی ہے امریکی حکومت کی طرف سے مالی معاونت کے تحت قائم انٹرنیشنل ری پبلک انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 2004ءکے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی نے 54فیصد ووٹ حاصل کئے تھے تاہم اب ان کی مقبولیت 39 فیصد رہی گئی ہے تاہم اب بھی وہ دیگر ایک درجن سےزائد حکومتی امیدواروں کے مقابلے میں مقولیت کے حوالے سے نہیں آتے ہیں اور اب بھی ان کے جیتنے کے چانسز ہیں ۔

Monday, June 15, 2009

بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ


گولہ باری کے بعد فوج شاید پیشقدمی بھی کرے

پاکستان میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی نے کہا ہے کہ فوج کو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ تاہم پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں کارروائی شروع بھی ہو چکی ہے

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایک دن پہلے ہی فوجی کارروائی شروع ہو گئی تھی اور پہلے دن وہاں کوٹکی، مکین اور دوسرے علاقوں میں کافی بمباری ہوئی ہے جو بیت اللہ محسود کے گڑھ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے بیت اللہ کے دس بارہ ساتھیوں کو مار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ایک فوجی چھاؤنی سے جنوبی وزیرستان میں گولہ باری ہوئی ہے اور اس کے بعد شاید فوج ان علاقوں میں پیش قدمی بھی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے دو بار بیت اللہ محسود کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے اور دو بار ہی ان کے ساتھ امن معاہدے بھی ہوئے ہیں۔

وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بارے میں بیانات اور اس امکان کو سمجھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بے گھر ہو گئے ہیں

۔

ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ پہلے جب کارروائی ہوئی اس میں بھی بیت اللہ کا نقصان تو ہوا تھا لیکن ان کا کوئی اہم کمانڈر نہیں مارا گیا تھا اور حکومت نے مجبوراً ان سے امن معاہدہ کیا تھا۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اب بھی بیت اللہ محسود کے قبضے میں سرکاری اہلکار ہوں گے جنہیں انہوں نے اغوا کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ ایسے اغوا شدہ لوگوں کو اپنے قیدی رہا کروانے کے لیے اور حکومت سے رقم وصول کرنے کے لیے استعمال کر چکے ہیں۔

رحیم اللہ نے کہا کہ اس فوجی آپریشن کے دوران کئی مراحل آئیں گے جن میں فوج اپنا کام کرے گی اور بیت اللہ محسود کی جانب سے جوابی کارروایاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن اچانک شروع نہیں کیا گیا بلکہ دو ہفتے پہلے بھی ملک کے صدر آصف زرداری کا بیان آیا تھا کہ سوات کے بعد ان علاقوں میں کارروائی ہو گی اس لیے اچانک حملے والی بات تو ختم ہو گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بارے میں بیانات اور اس امکان کو سمجھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بے گھر ہو گئے ہیں
Thanx To BBCURDU

Bait Ullah Mehsood K Khilaf Karrwayee...!

بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ


گولہ باری کے بعد فوج شاید پیشقدمی بھی کرے

پاکستان میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی نے کہا ہے کہ فوج کو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ تاہم پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں کارروائی شروع بھی ہو چکی ہے۔

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایک دن پہلے ہی فوجی کارروائی شروع ہو گئی تھی اور پہلے دن وہاں کوٹکی، مکین اور دوسرے علاقوں میں کافی بمباری ہوئی ہے جو بیت اللہ محسود کے گڑھ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے بیت اللہ کے دس بارہ ساتھیوں کو مار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ایک فوجی چھاؤنی سے جنوبی وزیرستان میں گولہ باری ہوئی ہے اور اس کے بعد شاید فوج ان علاقوں میں پیش قدمی بھی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے دو بار بیت اللہ محسود کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے اور دو بار ہی ان کے ساتھ امن معاہدے بھی ہوئے ہیں۔

وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بارے میں بیانات اور اس امکان کو سمجھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بے گھر ہو گئے ہیں

۔

ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ پہلے جب کارروائی ہوئی اس میں بھی بیت اللہ کا نقصان تو ہوا تھا لیکن ان کا کوئی اہم کمانڈر نہیں مارا گیا تھا اور حکومت نے مجبوراً ان سے امن معاہدہ کیا تھا۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اب بھی بیت اللہ محسود کے قبضے میں سرکاری اہلکار ہوں گے جنہیں انہوں نے اغوا کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ ایسے اغوا شدہ لوگوں کو اپنے قیدی رہا کروانے کے لیے اور حکومت سے رقم وصول کرنے کے لیے استعمال کر چکے ہیں۔

رحیم اللہ نے کہا کہ اس فوجی آپریشن کے دوران کئی مراحل آئیں گے جن میں فوج اپنا کام کرے گی اور بیت اللہ محسود کی جانب سے جوابی کارروایاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن اچانک شروع نہیں کیا گیا بلکہ دو ہفتے پہلے بھی ملک کے صدر آصف زرداری کا بیان آیا تھا کہ سوات کے بعد ان علاقوں میں کارروائی ہو گی اس لیے اچانک حملے والی بات تو ختم ہو گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بارے میں بیانات اور اس امکان کو سمجھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بے گھر ہو گئے ہیں.
Thanx To BBCURDU