بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ
پاکستان میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی نے کہا ہے کہ فوج کو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ تاہم پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں کارروائی شروع بھی ہو چکی ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایک دن پہلے ہی فوجی کارروائی شروع ہو گئی تھی اور پہلے دن وہاں کوٹکی، مکین اور دوسرے علاقوں میں کافی بمباری ہوئی ہے جو بیت اللہ محسود کے گڑھ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے بیت اللہ کے دس بارہ ساتھیوں کو مار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ایک فوجی چھاؤنی سے جنوبی وزیرستان میں گولہ باری ہوئی ہے اور اس کے بعد شاید فوج ان علاقوں میں پیش قدمی بھی کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے دو بار بیت اللہ محسود کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے اور دو بار ہی ان کے ساتھ امن معاہدے بھی ہوئے ہیں۔
وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بارے میں بیانات اور اس امکان کو سمجھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بے گھر ہو گئے ہیں
۔
ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ پہلے جب کارروائی ہوئی اس میں بھی بیت اللہ کا نقصان تو ہوا تھا لیکن ان کا کوئی اہم کمانڈر نہیں مارا گیا تھا اور حکومت نے مجبوراً ان سے امن معاہدہ کیا تھا۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اب بھی بیت اللہ محسود کے قبضے میں سرکاری اہلکار ہوں گے جنہیں انہوں نے اغوا کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ ایسے اغوا شدہ لوگوں کو اپنے قیدی رہا کروانے کے لیے اور حکومت سے رقم وصول کرنے کے لیے استعمال کر چکے ہیں۔
رحیم اللہ نے کہا کہ اس فوجی آپریشن کے دوران کئی مراحل آئیں گے جن میں فوج اپنا کام کرے گی اور بیت اللہ محسود کی جانب سے جوابی کارروایاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن اچانک شروع نہیں کیا گیا بلکہ دو ہفتے پہلے بھی ملک کے صدر آصف زرداری کا بیان آیا تھا کہ سوات کے بعد ان علاقوں میں کارروائی ہو گی اس لیے اچانک حملے والی بات تو ختم ہو گئی تھی۔
Thanx To BBCURDU
0 comments:
Post a Comment